رابعہ فاطمہ کے سوالوں کی ریل گاڑی

یک دفعہ کی بات ہے،ایک استاد کلاس میں بچّوں کو جمہوریت کے متعلق کچھ معلومات دے رہے تھے-انھوں نے بچّوں سے آزادی،مساوات،انصاف،اور برادری (ذات پات) کے متعلق چند سوالات کیے-سب بچّوں نے کچھ نہ کچھ جوابات دیے۔لیکن کچھ بچّوں کی تو عادت ہی ہوتی ہے کہ وہ آسان سے سوالات کے جوابات استاد سے درکار کرتے ہیں ۔کلاس میں ایک بچّی تھی جس کا نام رابعہ تھا۔اس کا کلاس میں بچّوں نے question bank نام رکھے تھے کیونکہ وہ استادوں سے بھت سوال کرتی تھی۔رابعہ نے سوال کیا۔

 کا نام رابعہ تھا۔اس کا کلاس میں بچّوں نے نام رکھے تھے کیونکہ وہ استادوں سے بہت سوال کرتی تھی۔رابعہ نے سوال کیا۔

 رابعہ:استاد ہم جانتے ہیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے؟مساوات کیا ہوتی ہے؟اور ذات پات بھی جانتے ہیں لیکن انصاف کیا ہوتا ہے؟

(استاد کی گردن شرم سےجھک گی انھوں نے سوچا کہ آج ہمارے معاشرے میں کیا حال ہے؟جو بچّوں کو انصاف تک نہیں معلوم کہ انصاف کیا ہوتا ہے؟

لیکن پھر بھی استاد نے جواب دیا۔)

استاد:انصاف تین طریقوں کا ہوتاہے 1)  )سیاسی انصاف     2) ( معاشی انصاف3)   (سماجی انصاف

(1) سیاسی انصاف: یہ ہمیں عالمی بالغ رائے دہی ،ایک برابر ہر شہریوں کا حق اور اقلیت کو تحفظ دیتا ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شہری چاہے وہ بڑے عہدے پر ہو یا چھوٹے عہدے پر،ہر ایک کو ایک برابر کے مواقع فراہم ہیں۔کوئی بھی بڑی طاقت چھوٹی طاقت سے اپنا کام زبردستی نہیں کرواسکتی۔

(2)معاشی انصاف: اس کا مطلب ہے بغیر معاش کے انصاف ۔یہ اُس طاقت کے لیے ہے جن کے پاس معاش نہیں ہوتا جو بہت غریب ہوتے ہیں۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شہری کو برابر کے مواقع حاصل ہیں۔روزگاری کے لیے اور وہ اپنی ہر ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔کوئی بھی ان کی اس طاقت کو چھین نہیں سکتا۔

3)سماجی انصاف: سماجی انصاف کا مطلب ہے فلاحی ریاست۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ سماج میں رہنے والے ہر ایک انسان برابر ہیں نہ کوئی چھوٹا ہے اور نہ ہی کوئی بڑا۔کسی کے درمیان نا برابری نہیں۔(اتنا سب سننے کے بعد رابعہ نے جواب دیا۔)

رابعہ:لیکن آج ہمارے معاشرے میں تو یہ سب کچھ بھی نہیں ہوتا تو ہمیں کیسے پتہ کہ انصاف کیا ہوتا ہے؟ہماری ہی اسکول میں جو بچے تعلیم کے شعبے میں اول،دوم،سوم مقام پر آتے ہیں انھیں ہر چیز میں اول ،دوم اور سوم مقام دیا جاتا ہے۔مثلاً تحریری مہارت ،ڈرائینگ کا مقابلہ،اور ہر چیز میں۔

استاد:جو بچے تعلیم میں اچھے ہوتے ہیں وہ ہر چیز میں اچھے ہوتے ہیں۔

رابعہ:ایسا نہیں ہے میرے استاد ۔کچھ بچے کسی چیز میں اچھے ہوتے ہیں تو کچھ بچے کسی اور میں۔

استاد :اب اسکول میں کسی بھی مہارت یا کسی بھی چیز کا مقابلہ ہوگا تو پہلے ہر بچے کی مہارت کو آزمایا جائیگا اور پھر ہی کوئی مقابلہ ہوگا۔

(اتنا سب سننے کے بعد کلاس کی دوسری طالبہ فاطمہ نے سوال کیا۔)

فاطمہ:استاد اگر کسی والدہ کو اپنے بچے کا داخلہ کسی اچھی اسکول میں کروانا ہو تو اسے زیادہ پیسے یا کسی source کی ضرورت ہوتی ہے کیوں بغير معاش اور بغير  source  کے اچھی تعليم حاصل نہیں کر سکتے؟

استاد:کیوں نہیں کر سکتے۔

فاطمہ:پھر ان کے ساتھ ناانصافی کیوں؟

استاد :کیا کریں ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔

رابعہ:ہاں استاد،کسی کسی اسکول میں تو ذات پات دیکھ کر بچوں کاداخلہ کیا جاتا ہے کسی دوسری ذات کے بچے کو داخلہ لینا ہو تو انھیں اس اسکول میں داخلہ نہیں ملتا ایسا کیوں؟

استاد :کیوں کہ وہ اپنی ذات کو سب سے افضل سمجھتے ہیں اس لیے۔

(استاد کے یہ کہتے ہی period ختم ہونے کی bell بجی۔)

ذرا سوچئے!

        آج کا زمانہ تو modern زمانہ ہے لیکن پھر بھی برسوں پرانے زمانے کی طرح آج کے انسان  برتائو کر رہے ہیں۔وہی زمانہ جس میں لڑکی پیدا ہوتے ہی اسے نظرِآتش کر دیا جاتا تھا اور لڑکوں کو مزید تعلیم دی جاتی تھی آج! train کے general  ڈبےّ میں کوئی عورت اگر داخل ہوتی ہے تولوگ چلا کے کہتے ہیں کیا ان عورتیںکے لے ladies    ڈبہّ نہیں بنایا گیا اور ناراضگی ظاہر کرنےلگتے ہیں اور یہی وجہ ہے کی لوگ ناراض بھی رہتے ہیں۔

               آج ہمارے معاشرے میں کوئی دوسری ذات کا بچہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتا ہے مثلاً دلت تو اسے کلاسکے بچے نام دینے لگتے ہیں اور اسے برا بھلا کہنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے اسے تعليم حاصل کرنے میں دخل پیدا ہوتی ہے۔

             آج کے ماحول میں اگر معاش حاصل کرنا ہو تو ذات دیکھی جاتی ہے کسی والد کو اپنے فرزند یا دختر کا بیاہ کرنا ہو تو ذات دیکھی جاتی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ اور ماحول کیا ہے روٹی ، بیٹی اور موت تک بھی ذات دیکھی جا رہی ہے ۔

             ذرا سوچیے! آج ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے ۔کوئی سماجی،معاشی اور سیاسی انصاف نظر ہی نہیں آرہا ؟کیا انھوں نے بھارت کے آئن کو نہیں پڑھا ، یا سمجھا نہیں یا ان کی اسکول میں پڑھایا اور سمجھایا نہیں گیا۔جو ان کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے جو صرف وہ اپنا فا ئدہ چاہتے ہیں ۔ یہ سوچنا ہمارا کام ہے۔ کیوں کہ ہمارے بھارت کے آئن میں صاف صاف لکھا ہے کہ نہ کوئی شہری بڑاہے نہ چھوٹا اور ہمارے ملک میں نہ کوئی ذات پات کا فرق ہے اور معاشی طور پر بھی نہ کوئی امیر ہے نہ کوئی غریب۔ 

Shaikh Mantasha

Introduction

I am Shaikh Mantasha. Studying in BSC first year. Hobby is to write something and to create something new.

  

Advertisement

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s